Islamabad Model College for Boys H-9 Islamabad hosted speech competition in connection with Kashmir Solidarity Day on Tuesday February 7, 2023. Ex-Principal IMCB H-9, Ex-Director / Director General FDE Raja Abdul Hafeez (Retired) graced the event as chief guest.
وفاقی نظامت تعلیمات اسلام آباد کی ہدایت پر اسلام آباد ماڈل کالج برائے طُلَباء H-9 مؤرخہ 7 فروری 2023 بروز منگل یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا ۔اس تقریب کی نظامت کے فرائض شعبہ نفسیات کے پروفیسر شاہد اعجاز نے بطریق احسن سر انجام دیے ۔ تقریب کا آغاز قرآن مجید کی تلاوت سے ہوا جس کا شرف آرٹس گروپ کے سال دوم ، سیکشن H-2 کے طالب علم حافظ ذاکر علی پٹھان رول نمبر 22HH037 کو حاصل ہؤا ۔ قرآن پاک سورۃ الحشر کی آخری تین آیات کی تلاوت ہوئی تو خدائے بزرگ و برتر کی صفات کاملہ کے ذکر نے اک روح پرور سماں باندھ دیا ۔ وہی اللہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، سب چھپی اور کھلی باتوں کا جاننے والا ہے، وہ بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔وہی اللہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بادشاہ، پاک ذات، سلامتی والا، امن دینے والا، نگہبان، غالب، زبردست، بڑی عظمت والا ہے، اللہ پاک ہے اس سے جو اس کے شریک ٹھہراتے ہیں۔وہی اللہ ہے پیدا کرنے والا، ٹھیک ٹھیک بنانے والا، صورت دینے والا، اس کے اچھے اچھے نام ہیں، سب چیزیں اسی کی تسبیح کرتی ہیں جو آسمانوں میں اور زمین میں ہیں، اور وہی زبردست حکمت والا ہے۔
شرکاء نے اس دن کو کشمیریوں کی آزادی کے نصب العین سے اپنی بھرپور وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے منایا، کشمیریوں کے لئے آزادی کے نعرے جوش و خروش سے لگائے اور تقاریر، شاعری اورملی نغموں کے ذریعے اپنی حب الوطنی کا اظہار کیا۔ شرکاء نے بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے عوام اور کشمیری حریت پرستوں کی بھارت سے آزادی ی کی کوششوں کے ساتھ اپنی لازوال حمایت اور اتحاد کا عہد کیا، انہوں نے آزادی کے عظیم مقصد کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے کشمیریوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔
نعتیہ استغاثہ بحضور سرور کونین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرنے کا اعزاز سال دوم آئی سی ایس سیکشن G-2 کے طالب علم محمد رمضان سیفی ، رولنمبر 21HC030 کو حاصل ہوا۔
خوشبوئیں پیہم آتی ہیں
بیٹھا ہوں مسجدِ نبوی میں
کیوں سانسیں مہکی مہکی ہیں
بیٹھا ہوں مسجدِ نبوی میں
کیوں سانسیں مہکی مہکی ہیں
محسوس ہوا ہے یوں مجھ کو
کہ شہرِِ نور میں بیٹھا ہوں
کیا نور کی کرنیں اتری ہیں
بیٹھا ہوں مسجدِ نبوی میں
کیوں سانسیں مہکی مہکی ہیں
مشغول دردودوں میں ہوں کبھی
مصروف دعاوں میں ہوں کبھی
نعتیں بھی لبوں پر رہتی ہیں
بیٹھا ہوں مسجدِ نبوی میں
کیوں سانسیں مہکی مہکی ہیں
کیا بات اجاگر ہے میری
قسمت بھی رشک کرے مجھ پر
کہ سامنے یاور و حامی ہے
بیٹھا ہوں مسجدِ نبوی میں
خوشبوئیں پیہم آتی ہیں
بیٹھا ہوں مسجدِ نبوی میں
یوں سانسیں مہکی مہکی ہیں
بیٹھا ہوں مسجدِ نبوی میں
ہدیہ نعت شریف بحضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کے بعد یوم یکجہتی کشمیر کے حولہ سے تقاریر اور ملی نغموں کا آغاز ہوا۔ کالج کے سیکڑوں طلباء، پروفیسرز اور غیر تدریسی عملے کے ارکان نے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی اور غیر متزلزل حمایت کا اظہار کیا۔
چودھری محمد ذیشان اکرم نون ( رول نمبر 22HE068 ، سال اول، پری انجینرنگ ، سیکشن E-2 ، محمد حسان ( رول نمبر 22HE004 ، سال اول، پری انجینرنگ ، سیکشن E-2 , ( ، محمد ثقلین (رول نمبر 22HM140 ، سال اول پری میڈیکل گروپ، ( M-2 محمد ریاض ( رول نمبر 22HM046 ، سال دوم ، پری میڈیکل ، سیکشن M-2 ( ، سید محمد یاسر شاہ ( رول نمبر 22HM095 ، سال دوم ، پری میڈیکل ، سیکشن M-1 ( ، حذیفہ ظہور ( رول نمبر 22HC053 ، سال اول ، آئی سی ایس ، سیکشن G-2 ( ، دیان احمد خلجی (رول نمبر 22HH10، سال دوم ، سیکشن-2 H ) ، سرحان سجیل (رول نمبر 21HE035، سال دوم ، سیکشن E-2 ) ، نے اپنی تقاریر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کے لئے کشمیری عوام کی جدوجہد کو واضح طور پر اجاگر کیا ۔ سال اول آرٹس گروپ ، سیکشن H-1 کے ہونہار طالب علم ذوالفقار علی رول نمبر 22HH037 نے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے مقصد کے لئے محبت اور حمایت کا اظہار کرنے کے ملی نغمہ خدا سے خدا سے منّت ہے میری , لوٹا دے جنّت وہ میری گایا تو حاضرین کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
سال اول پری انجینرنگ سیکشن E-2 کے طالب علم چودھری محمد ذیشان اکرم نون رول نمبر 22HE068 نے کشمیر میں ہونے والی ریاستی دہشت گردی کو اپنا موضوع سخن بناتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں 70 ہزار سے زائد معصوم افراد کا قتل کر دیا گیا ، 8 ہزار افراد کو گھروں سے اٹھا کر غائب کر دیا گیا ، طؒم و ستم کا بازار گرم ہے، انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں، مگرکشمیریوں کی آہ و بکا سے اقوام عالم کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی، سلامتی کونسلی کی قراردادیں زنگ آلود ہو چکی ہیں ۔ ستم ظریفی کی انتہاء ہے کہ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر دنیا کی آنکھیں بند ہیں، اور کشمیری خون میں لت پت اس عزم کا اظہار کر رہے ہیں:
؎ وہ سنگ گراں جو حائل ہے رستے سے ہٹا کر دم لیں گے
ہم راہِ حق کے رہرو ہیں منزل پہ ہی جاکر دم لیں گے
ہر سمت مچلتی کرنوں نے افسوںِ شبِ غم توڑ دیا
اب جاگ اٹھے ہیں دیوانے دنیا کو جگاکر دم لیں گے
فرعون بنے جو پھرتے ہیں ڈھاتے ہیں ستم کمزوروں پر
ہم سرکش جابر لوگوں کو قدموں میں جھکا کر دم لیں گے
یہ بات عیاں ہے دنیا پر ہم پھول بھی ہیں تلوار بھی ہیں
یا بزمِ جہاں مہکائیں گے یا خوں میں نہا کر دم لیں گے
سوچا ہے کفیلؔ اب کچھ بھی ہو،ہر حال میں اپنا حق لیں گے
عزت سے جئے تو جی لیں گے یا جامِ شہادت پی لیں گے۔
سالِ اول پری انجینرنگ سیکشن E-2 کے طالب علم محمد حَسّان رول نمبر 22HE004 نے کشمیر کے تنازع کو روحِ زمیں پہ سب سے مشکل، سب سے اُلجھا ہوا ، سب سے خطرناک مسئلہ قرار دیا، جو نہ اگلا جاتا ہے نہ ہی نگلا جتا ہے ۔پاکستان نے کشمیر کے مسئلے میں آنکھ کھولی ہے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک کشمیری حالاتِ جنگ میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔یہ بد قسمت خط ظالموں کی گرفت میں ہے۔ اکثریت پر اقلیت کا قبضہ ہے۔ ہر گھر مورچہ ہے اور ہر گلی میدانِ جنگ بن چُکی ہے ۔ ۔مکین اپنے مکانوں میں محصور زندگی کو ترس رہے ہیں۔آدم کی بیٹیاں نیلام ہو رہی ہیں مگر سلامتی کونسل کی قراردادیں ردی کی ٹوکری کی نذر ہو گئی ہیں ۔ دنیا کا عدالتی نظام اقوام عالم کی لالچ اور سیاسی مفادات کے ہاتھوں مفلوج ہو چکا ہے ۔کشمیریوں کا ہر گھر لُٹا ، چادر کی حرمت پامال ہوئی ، گھروں سے جنازے اٹھے لیکنکوئی بھی کشمیریوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کو تیار نہیں۔
سال اول ، پری میڈیکل، سیکشن M-2 کے طالب علم محمد ثقلین نےمسئلہ کشمیر پر عالمی بے حسی کا ماتم کرتے ہوئے وہ تلخ حقائق دہرائے جومردہ ضمیر عالم کو بے سود دُہائی دے رہے ہیں۔ 21 جنوری 1990 کو سری نگر کے کشمیری لال چوک کی طرف احتجاج کرنے نکلے تو بھارتی فوج بوکھلا گئی، کھلی فائرنگ کی گئی اور ایک سو (۱۰۰ ) سے زیادہ معصوم کشمیریوں نے جام شہادت نوش کیا، صرف جنوری 1990 میں ۳۰۰ سے زیادہ مسلمان کشمیریوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی ، مگر دنیا کے منصفوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ ، یکم مارچ ۱۹۹۰ کو سری نگر کے مسلمانوں نے اقوام متحدہ کو دہائی دینے کیلیے پرامن مظاہرہ کیا تو بھارت نے اقوام عالم کی مُنصفی کی دھجیاں بکھیر دیں اور 27 مسلمانوں کو جام شہادت نوش کرنا پڑا، مگر دنیا کے منصفوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔، 21 مئی1990 کے دن میر واعظ محمد فاروق کے جنازہ پر کھلی فائرنگ کی گئی اور 60 سے زیادہ نہتے مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کیا ، مگر دنیا کے منصفوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔
کشمیر کی بیٹیاں آج بھی دنیا کے مُنصفوں کی راہ دیکھ رہی ہیں، کشمیر کا ہر بچہ یہ پوچھ رہا ہے کہ ضمیرِ عالم کو جھنجھوڑنے کیلیے ہمیں کتنے جلیل اندرابی اور کتنے برہان وانی قربان کرنے ہوں گے؟
سال دوم کے پری میڈیکل کے طالب علم محمد ریاض، رول نمبر 21HM046 نے انگریزی زبان میں اپنی تقریر میں کشمیر میں ہونے والی بربریت کو بے نقاب کیا اور آخر میں اس امید کا اظہار کیا کہ کشمیر میں آزادی کی تحریک ضرور ور رنگ لائے گی۔ کشمیری ایک زندہ قوم ہیں، وہ گوشت پوست کے زندہ انسان ہیں۔ انہیں نہ تو کوئی مہاراجہ گلاب سنگھ ڈوگرہ خرید سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ہری سنگھ انہیں بیچ سکتا ہے۔ ایک زندہ قوم کو محکوم نہیں رکھا سکتا۔ ان کی آزادی کو سات لاکھ بھارتی فوج دبا نہیں سکتی۔ تمام تر بربریت اور ظلم کے باوجود ہر کشمیری نعرے لگاتا ہے: ہم لے کر رہیں گے آزادی۔ . جناب صدر، اس روشن خیال بین الاقوامی جدید دنیا میں کشمیر انصاف چاہتا ہے۔ کشمیر اقوام متحدہ سے، سپر پاورز سے، یورپی یونین سے، او آئی سی سے، ہر پاکستانی سے انصاف چاہتا ہے۔ وہ انسانی ضمیر پر دستک دیتے رہیں گے اور نعرے لگاتے رہیں گے: ہم لے کے رہیں گے آزادی ۔
سال دوم کے پری میڈیکل کے طالب علم محمد یاسر شاہ رول نمبر 21HM095 نے انگریزی زبان میں اپنی تقریر میں مسئلہ کشمیر کو تقسیم ہندوستان کے منصوبہ کی عدم تکمیل قرار دیا ۔ اگرچہ کشمیر کورب لا یزل نے مسحور کن خوبصورتی سے نوازا ہے اور اسے صحیح معنوں میں "زمین پر جنت" کہا جاتا ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ 1947 میں بھارتی فوج کے قبضے کے بعد سے اسےاس کے اپنےباسیوں کے لئے جہنم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔بہادر کشمیریوں نے اس غیر قانونی قبضے کو کبھی قبول نہیں کیا۔ وہ گزشتہ 76 سالوں سے آزادی اور حق خودارادیت کے اپنے جائز مقصد میں بے مثال قربانیاں دیتے آ رہے ہیں۔ جمہوریت کےعلمبردار کہاں ہیں؟ آزادی اور انسانی حقوق کے محافظ کہاں ہیں؟ اقوام متحدہ کی وہ قراردادیں کہاں ہیں جن میں جموں و کشمیر میں استصواب رائے کرانے کا وعدہ کیا گیا تھا تاکہ کشمیری اپنی قسمت کا فیصلہ خود کر سکیں؟
سال اول کے آئی سی ایس سیکشن G-1 کے طالب حذیفہ ظہور رول نمبر 22HC053 نے اانگریزی زبان میں اپنی تقریر میں اقوام عالم سے گلہ کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر سے نظریں چُرائے بیٹھے ہیں ۔ انصاف اور انسانی حقوق کے علمبردار کہاں ہیں؟ ۔ وہ کبھی نہیں آئیں گے۔ بلکہ ہمیں اپنی لڑائی خود لڑنی ہو گی ، ہمیں وہ سب کچھ کرنا ہوگا جو ہم کر سکتے ہیں ۔ ہم کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم نے ماضی میں ان کے لئے اپنی جانیں دی ہیں، اور ہم مستقبل میں بھی ایسا کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ ہم انہیں آزاد کر اکے دم لیں گے ، ہم کشمیریوں کو ان کا حاکمیت کا حق دلا کر دم لیں گے۔ بلاشبہ، بدنیتی پر مبنی ہتھکنڈے زیادہ دیر تک کام نہیں کریں گے۔
سال دوم ، آرٹس گروپ، سیکشن H-2 کے طالب علم رول نمبر 21HH110 دیان احمد خلجی نےاس دکھ کا اظہار کیا کہ وادی کشمیر میں چنار کا ہر درخت شعلوں میں جل رہا ہے۔ ہر چشمہ اور ہر آبشار کشمیریوں کے بے گناہ خون سے سرخ ہو چکے ہیں۔ قدیم ڈل جھیل اپنے دیکھنے والوں آبی نرگس پیش نہیں کرتی، بلکہ تیرتی ہوئی لاشیں پیش کرتی ہے۔ گزشتہ 30 سالوں کے دوران ہندوستان نے نے اس "جنت ارضی " کو جہنم میں تبدیل کر دیا ہے۔ بھارت نے اس سرزمین پر طاقت کےبل بوتے پر پرغاصبانہ قبضہ کیاہوا ہے، لیکن وہ کشمیری عوام کےغیر متزلزل عزم اور حوصلہ کو شکست نہیں دے سکا۔کشمیریوں نے تمام مظالم کے خلاف بے مثال ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے۔
سال دوم پری انجینرنگ گروپ سیکشن E-1 کے طالب علم سرحان سجیل رول نمبر 21HE035 نے مسئلہ کشمیر کو ایک انسانی بحران کے طور پر پیش کیا۔ کشمیر کے لوگوں کو قتل کیا گیا، زخمی کیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انسانی وقار اور خوشیوں سے محروم رکھا گیا۔ ہزاروں لوگ زخمی ہوئے اور وہ کام کرنے کے لئے معذور ہو گئے۔ بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے اپنے پیارے بچوں بیٹیوں، بہنوں اور ماؤں کو کھو دیا اور اسی طرح کشمیر میں بہت سی خواتین بیوہ ہوگئیں ، کئی بچے یتیم ہو گئے اور بہت سی مائیں اپنے جگر گوشوں سے محروم ہو گئیں۔ کشمیر میں ہزاروں دکانیں اور گھر جل کر راکھ ہو گئے۔ لیکن اگرچہ کشمیر جل رہا ہے، اگرچہ عورتیں رو رہی ہیں، اگرچہ بچوں کو دہشت زدہ کیا جا رہا ہے، لیکن نام نہاد انصاف کےعلمبردار اور انسانی حقوق کےداعی ان حقائق سے مُجرمانہ چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔
اس تقریب کی خاص بات سال اول آرٹس گروپ ، سیکشن H-1 کے ہونہار طالب علم ذوالفقار علی رول نمبر 22HH037 کا ملی نغمہ تھا، جس میں کشمیری عوام پر کیے گئے ظلم و ستم کی تصویر کشی کی گئی ۔ مقبوضہ کشمیر کی کی تڑپ جب اس طالب علم کی آواز میں مدغم ہوئی تو ہر آنکھ اشک بار ہو گئی:
خدا سے منّت ہے میری
لوٹا دے جنّت وہ میری
وہ امن وہ چمن کا نظارا
او خدایا! لوٹا دے کشمیر دوبارہ
میری روح کی تصویر میرا کشمیر
او خدایا! لوٹا دے کشمیر دوبارہ
چاروں طرف تو پہلے سکون ہی سکون تھا
عوام کو وطن سے عشق کا جنوں تھا
اب یہاں قتل ہے، اب وہاں خون ہے
میری اولاد میرے کشمیر سے محروم ہے محروم ہے
میرا کشمیر سنوارا کیوں جب اس کو یوں اجڑنا تھا
خوشنما منظر پہ خنجر کیوں چلایا
او خدایا لوٹا دے کشمیر دوبارہ
چاہے کفن کا جوڑا مجھ کو پہنا دے تو
میرے بچوں کو وہ جنّت کشمیر دکھا دے تو
وہ میرا گلستان بن گیا شمشان
یہاں موت کی دہلیزپہ کھڑا ہے ہر انسان
او خدایا لوٹا دے کشمیر دوبارہ
پروفیسر شاہد محمود چوہدری نے ریاست کشمیر کی نمائندگی کرتے ہوئے اس کے باسیوں کی پاکستان سے تاریخ وابستگی کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنی علمی گفتگو کی بنیاد علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد پر رکھی ، خطبہ الہ آباد میں علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا تصور پیش کیا ، اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ تھی جبکہ ریاست کشمیر میں مسلمانوں کی کسی نمائندہ سیاسی جماعت کا وجود نہیں تھا ۔ علامہ محمد اقبال کے خطبہ الہ آباد کی گونج جب وادی کشمیر میں سنائی دی تو کشمیری مسلمانوں نے کشمیر کے ریاستی پس منظر میں مسلمانوں کیلیے سیاسی خلا کو بھانپتے ہوئے مسلم لیگ کی طرز پر اپنی ایک سیاسی جماعت مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی ۔ مسلم لیگ کے سیاسی نقش قدم پر چلتے ہوئے مسلم کانفرنس ریاست کشمیر کی طرف سے باقاعدہ سالانہ اجلاس منعقد کیا جاتا تھا ، 23 مارچ 1940 کی قراراداد پاکستان کی مسلم کانفرنس کی طرف سے بھی توثیق کی گئی۔ 1944 میں مسلم کانفرنس کی دعوت پر سری نگر کے دورہ کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح نےوہ تاریخی جملہ ادا کیاَ جس کی گونج آج بھی دنیا کے ایوانوں میں سنائی دیتی ہے:کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے ۔
اسلام آباد ماڈل کالج برائے طلباء ایچ 9 اسلام آباد کے وائس پرنسپل پروفیسر غلام قادر عباسی نے کشمیر کے عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کو حق رائے دہی دینا ہی مسئلہ کشمیر کا واحد حل ہےاور کشمیر بلاشبہ پاکستان کی شہہ رگ ہے ۔ انہوں نے پرنسپل پروفیسر جاوید اقبال مغل کا تہہ دل سے شکریہ ادا گیا کہ کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلیے اس باوقار خصوصی تقریب کا اہتمام کیا۔ اس تقریب کے مقریرین کی گفتگو اور حاضرین کے نعروں کی گونج پاکستانی عوام کے دلوں میں کشمیریوں کی محبت ، ان کی عزت اور ان کے حق آزادی کے ساتھ یکجہتی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد کا آغاز 1846 ء میں ہی ہو گیا جب کشمیر میں مسلمانوں کے لگ بھگ بانچ سو سالہ اقتدار کا خاتمہ کیا گیا، اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے کشمیرجنت نظیر کو صرف 55 لاکھ روپےمیں مہا راجہ گلاب سنگھ ڈوگرہ کے ہاتھوں فروخت کر دیا، جس پر حضرت علامہ اقبال نے فرمایا:
دہقان و کشت و جُو و خیاباں فروختند
قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند
کشمیر کے کاشتکاروں، کھیتوں، دریاؤں، اورباغات کو بیچ دیا گیا
پوری قوم کو بیچ دیا گیا ، اور کتنے سستے داموں فروخت کر دیا گیا ؟
کشمیری عوام کی پاکستان کے ساتھ وابستگی لازوال ہے ، ریاستی دہشت گردی کشمیریوں کے کلچر اور ان کی منفرد شناخت پر حملہ آور ہے مگر اُن کے دل آج بھی پاکستانی عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں، وہ آج بھی اپنے خون سے ٓزادی کی تحریک کی آبیاری کر رہے ہیں اور اس یقین کے ساتھ اپنی جدوجہد کو جاری رکھتے ہوئے بھارت کے ریاستی جبر کے خلاف نبردآزما ہیں کہ یہ جنت ارضی جلد پاکستان کا حصہ ہوگی۔
پروفیسر احمد جمال (وائس پرنسپل ایڈمن ) نے اپنی تقاریر میں مسئلہ کشمیر کی تاریخی اور نظریاتی بنیادوں پر روشنی ڈالی ، کشمیریوں کے ساتھپاکستانی قوم کی وابستگی کا اظہار کیا اور نریندر مودی کے دور حکومت میں کشمیری مسلمانوں کی حالت زار پر روشنی ڈالی۔انہوں نے مسئلہ کشمیر کے مختلف تکنیکی پہلوؤں کو اجاگر کیا ، بھارتی افواج کے ہاتھوں کشمیریوں پر ظلم و ستم اور بالخصوص آرٹیکل 370 کی منسوخی کے پس منظر میں ہونے والی ریاستی دہشت گردی کو واضح کیا ۔ اپنی گفتگو کا اختتام کرتے ہوئے پروفیسر احمد جمال نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلیے قابل عمل پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو کی۔
پرنسپل اسلام آباد ماڈل کالج برائے طُلَباء H-9 اسلام آباد پروفیسر جاوید اقبال مغل نے مسئلہ کشمیر کے تاریخی و نظریاتی پس منظر پر روشنی ڈالی ، اور اس انسانی بحران کے حقیقت پسندانہ حل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بہترین سفارت کاری ، مضبوط معیشت، سائنسی ترقی اور علمی میدان میں ترقی ہی پاکستان کو اس مقام پر لا سکتی ہے جو بین الاقوامی برادری کو اس کے جائز مؤقف سننے ااور کشمیری عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
پروفیسر جاوید اقبال مغل ، پرنسپل اسلام آباد ماڈل کالج برائے طلباء H-9 اسلام آباد نے اپنے صدارتی خطبہ میں مہمان خصوصی پروفیسر راجہ عبدالحفیظ ، سابق ڈائریکٹر جنرل وفاقی نظامت تعلیمات کا خصوصی شکریہ ادا کیا، انہوں نے اپنے وائس پرنسپلز کی سربراہی میں اساتذہ کرام ، ایڈمن آفیسر راشد محمود کیانی، نان ٹیچنگ سٹاف اور طُلَباء بالخصوص سٹوڈنٹس کونسل کے ٹیم ورک کو خوب سراہا ، کہ اس منظم اجتماعی کاوش کی وجہ سے یوم یکجہتی کشمیر کی اس پروقار تقریب کا نعقاد ممکن ہؤا۔
تقریب کے مہمان خصوصی پروفیسر راجہ عبدالحفیظ ، سابق ڈائریکٹر جنرل ، وفاقی نظامت تعلیمات نے حاضرین کی فعال شمولیت کو سراہتے ہوئے کہا کہ بالخصوص نوجوان نسل کا کشمیریوں سے وابستگی کا پرجوش اظہار قوم کے اس عزم کی توثیق کرتا ہے کہ وہ ہر مشکل وقت میں کشمیریوں کی مدد کریں گے۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہاگر پاکستانی قوم اگر جُہدِ مُسلسل پر گامزن ہو جائے ، اور علم اور محنت کے ذریعہ دنیا میں اپنا نام پیدا کرے تو بھارت کی جانب سے ریاستی ظلم و ستم کا باب بند ہو جائے گا اورپاکستانی مسلمانوں میں علم و عمل کی ضرورت ہے اور یہی تبدیلی پاکستان کی ترقی اور کشمیر کی آزادی کا پیش خیمہ ہے ۔انہوں نے کالج میں ہونے والی تعمیری ترقی کو مثالی قرار دیا، اور اسے پروفیسر جاوید اقبال مغل کی سربراہی میں ہونے والےاساتذہ کرام، نان ٹیچنگ سٹاف، والدین / سرپرستوں اور طلباء کے ٹیم ورک کا ثمر قرار دیا۔
مہمان خصوصی نے میزبان کالج کے پرنسپل پروفیسر جاوید اقبال مغل کی سربراہی میں اسلام آباد ماڈل کالج برائے طُلَباء ایچ 9 کی جانب سے تقریب کے شاندارانتظام و انعقاد کو سراہا۔ انہوں نے تقریب کے شاندار انعقاد پر میزبان کالج کے اساتذہ کرام ، نان ٹیچنگ سٹاف اور طُلَباء کی کاوشوں کی بھی تعریف کی اور اس سلسلے میں ٹیم ورک کے جذبہ کو سراہا۔
طُلَباٗ مقررین کی حوصلہ افزائی اور کتاب بینی کے فروغ کیلیے ان میں کتابوں کے تحائف تقسیم کیے گئے ، مہمان خصوصی کو بھی کتابیں تحفہ کے طور پر دی گئیں اور انہیں اسلام آباد ماڈل کالج برائے طُلَباء H-9 اسلام آباد کی انتظامیہ، اساتذہ کرام، نان ٹیچنگ سٹاف اور طُلَباء کی طرف سے یادگاری شیلڈ بھی پیش کی گئی۔
سیمینار کاباقاعدہ اختتام قومی ترانہ سے ہوا ور فضاء ہم لے کے رہیں گے آزادی کے نعروں سے گونجتی رہی۔
(تحریر: پروفیسر کنور محمد نبیل ، ممبر میڈیا کمیٹی)